آزمائش


 "میں بہت پریشان ہوں،پلیز کوئی وظیفہ یا آیت ہی بتا دیں ــ” پوچھنے والے کا لہجہ ہی اتنا افسردہ تھا کہ دیکھے بنا اندازہ ہو رہا تھا کہ واقعی کوئی بڑی پریشانی ہے،کس قسم کی پریشانی؟میں نے سلام کے جواب کے بعد پوچھا،
کوئی ایک ہو تو بتاؤں ناں ۔۔اس کا سر جھکا ہوا تھا اور یک دم وہ خاموش ہوگیا۔
میں نے حالات کی نزاکت کا اندازہ لگایا کہ پہلے اس کو بولنے دیا جائے،وہ گویا ہوا:
مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی، ہم جتنا اللہ کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو پریشانیاں اتنی ہی گھیر لیتی ہیں،کیا وجہ ہے کہیں ایسا تو نہیں؟ کہ اللہ خود ہمیں قریب نہیں آنے دیتا؟
اس نے آخری جملے کو قدرے آہستگی سےکہا
میرے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہے مگر آئے روز کوئی نا کوئی گھر میں بیمار ہوتا ہے،اور ایسی بیماری جس کے بارے ہم تصور نہین کرسکتے،یک دم وہ بیماری آ پکڑتی ہے۔
بس جی بہت پریشان ہوں ۔۔

اس نے بات مکمل کی ، میری نظریں مسلسل اس کے چہرے کی پریشان کن جھریوں میں الجھی ہوئیں تھیں ، میں نے سوال کیا
اچھا یہ بتائیں جب پریشانیاں آتی ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں؟مطلب آپ کون سا عمل کرتے ہیں؟
جی میں جتنی استطاعت ہو صدقہ دیتا ہوں،دعا کرتا ہوں ۔۔وہ حیرانگی سے بتا رہا تھا اور اس کی آنکھیں میرے چہرے پر تھیں۔۔
تو پھر تو آپ کو فکر نہیں کرنی چاہیے۔۔میں نے پُرسکون انداز میں کہا۔
کیا مطلب؟ فوراً اس نے پوچھا۔۔
میں مخاطب ہوا:
دیکھیں! جو پریشانیاں دنیا میں آتیں ہیں اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں یا تو وہ آزمائش ہوتی ہیں یا وہ عذاب ،
میں سمجھا نہیں ۔۔ اس نے فوراً بات کاٹی
میں نے بات کومکمل کیا
اگر ایسی مصیبت جو ہمیں اللہ رب العزت کے قریب کردے تو وہ آزمائش ہوتی ہے اور جو مصیبت ہمیں اللہ رب العزت سے دورکر دے تو وہ عذاب ہوتی ہیں ، یعنی جس مصیبت کے آنے پر بندہ اللہ کو یاد کرے اور یقین مضبوط ہو اللہ کی نافرمانی چھوڑ دے تو وہ آزمائش ہے اور اگر وہ اللہ سے مایوس ہو جائے یا اللہ رب العزت کی نافرمانی کا ارادہ کرے تو اسے جان لینا چاہیے کہ وہ عذاب ہے۔
اور آزمائش ایمان میں اضافے کا باعث ہے اور عذاب ایمان سے دوری کا باعث ، اب آپ نے فیصلہ کرنا ہو گا کہ آپ اپنی مصیبت کو آزمائش بناتے ہیں یا اپنے لیے عذاب ۔۔۔۔۔
مگر یہ یاد رکھیں کہ مصیبت کی دعاء نہ کریں۔ ہاں اگر آجائیں تو اسے آزمائش بنائیں ناں کہ عذاب ۔۔
تو یہ آزمائش آتی کیوں ہیں؟ ۔۔ اس نے پھر سوال کیا ۔۔
بھائی! آسان سی بات ہے، آپ اللہ کے قریب ہونا چاہتے ہیں اور اللہ آپ کو اپنے قریب کرنا چاہتا ہے ، آپ چل کر قریب ہونا چاہتے ہیں اور وہ دوڑ کر آپ کو اپنے قریب کرتا ہے، میں نے سانس لیا ۔۔
اچھا اب سمجھ آئی ۔۔۔ اب اس کے لہجے میں مسرت کا احساس تھا اور لگتا تھا اب وہ تیار تھا کہ اللہ رب العزت دوڑ کر اس کو قریب کر لیں ۔۔۔

تبصرہ کریں