اللہ کی قدرت کا کرشمہ

چھوٹی یا بڑی جس چیز کو بھی اللہ تعالی نے پیدا کیاہے اس میں ہمارے لیے سامانِ عبرت ہے، اللہ تعالی نے اسے کیوں پیدا کیا اس کے پسِ پردہ کیا حکمت تھی اس کا اندازہ اس آیتِ کریمہ سے لگائیں کہ

وما یعلم جنود ربک الا ھو﴿(المدثر31)

”اللہ ہی کو اپنے لشکر کا بخوبی علم ہے“۔

انسان ہرحال میں اللہ کی عظمت اور اس کی حکمت کا ادراک کر کے اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کا پابند ہے ، ہم اللہ کی حکمت کا احاطہ نہیں کرسکتے اور ہمارے علم کی رسائی وہاں تک نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

ومااوتیتم من العلم الا قلیلا ﴿ (الاسراء85) ”

تمہیں تو تھوڑاسا علم دیا گیا ہے“۔

ذیل کے سطور میں ہم اس قبیل کے چند واقعات بیان کررہے ہیں جو اللہ کی قدرت عظیمہ اور اس کی کرشمہ سازی کو بیان کرتے ہیں جن سے ایمان تازہ ہو تا اور عبرت ملتی ہے ۔

(1) ابراہیم عليه السلام کے زمانہ کا نمرود بادشاہ جس نے رب ہو نے کا دعوی کیا تھا،اللہ پاک نے دین کاپیغام پہنچانے کے لیے اس ظالم بادشاہ کے پاس ایک نیک صفت بادشاہ کو بھیجا، اس ظالم بادشاہ نے قبولِ حق سے انکار کردیا، دوسری مرتبہ پھر تیسری مرتبہ اس نے ایما ن کی دعوت دی لیکن وہ مصر رہا اور برجستہ کہا:” اپنے لشکر کو جمع کرو، میں بھی اپنے لشکر کو جمع کرتاہوں“۔نمرود نے اپنے لشکر کوجمع کیا تو اللہ تعالی نے ان پر مچھر وں کا دروازہ کھول دیا، مچھر ان پرعذاب کی شکل میں مسلط کردیا گیا جو ان کا گوشت کھانے لگا اور خون پینے لگا، اس طرح انہیں خالص ہڈی بناکر چھوڑدیا ،ایک مچھر بادشاہ کے ناک میں داخل ہوگیا اور اسی میں چارسو سال تک پڑا رہا ، اس کے سر کو جو تے سے پیٹا جاتا تھا تا کہ وہ ہلاک اور برباد ہو گیا۔

(2) ابابیل پرندہ جس کا ذکر قرآن شریف کے سورہ فیل میں آیا ہے ، جسے اللہ تعالی نے ابرہہ پر مسلط کیا تھا، ابرہہ بھار ی ہاتھی پرسوار ہوکر کبروغرور سے بیت اللہ شریف کو منہدم کرنے آیاتھا، راستے میں اس نے عبد المطلب کی اونٹنی پکڑ لی، جب عبد المطلب اس کے پاس اونٹ کی رہائی کے لیے پہونچے تو ابرہہ نے ان کو گھٹیاسمجھتے ہوئے کہاکہ میں ایسے گھر کو نیست ونابود کر نے آیا ہو ںجس میں تیری عزت اور تیری قوم کی سربلندی ہے اور تو میرے پاس اپنا اونٹ لینے پہنچ گیا۔ عبد المطلب نے کہا: میں تو اونٹ کا مالک ہوں اور کعبہ کا مالک ”اللہ“ ہے جو اس کی حفاظت کرنے کے لیے کافی ہے ۔

ابرہہ نے اپنی افواج کو حرکت دی جس کا مقدمة الجیش اس کا بڑا ہاتھی تھا، اللہ نے سرکش جماعت پر چھوٹے پرندوں کی شکل میں اپنا لشکر مسلط کردیا جو سمندر کی طرف سے آیا اور ان پر کنکریاں پھینکنے لگا جو انہیں کھائے ہوئے بھوس کی مانند کردیا ۔

(3) آپ صلى الله عليه و سلم ایک منبر پر خطبہ دیا کرتے تھے جب آپ صلى الله عليه و سلم نے اس منبر کو چھوڑدیا تو وہ بچہ کی طرح رونے لگاچنانچہ آپ اس سے چمٹ گئے، تب اس کی آواز بند ہوئی ۔

آپ صلى الله عليه و سلم نے لرزتے ہوئے پہاڑ کوخطاب کیا جس پر آپ صلى الله عليه و سلم ، ابوبکر ، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم تھے ﴾ اثبت يا احد فإنماعلیک نبی وصدیق وشہیدان”

( 4)عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے ابراہیم عليه السلام کے قصہ میں بھی عظیم درس ہے جبکہ انھوں نے اللہ سے سوال کیا تھا : اے میرے پروردگار! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ اللہ تعالی نے فرمایا: کیا تمھیں اس پر یقین نہیں،جواب دیا: ایمان تو ہے لیکن میرے دل کو تسکین ہوجائے گی ، فرمایا: چار پرندے لو‘ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالو‘پھرہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو ‘ پھرانہیں پکارو ‘ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے۔ (سورة البقرة ۰۶۱) غرضیکہ اللہ تعالی نے ان کی ایک ایسی حسی چیز کی طرف رہنمائی کی جس کے عینی مشاہدے کے بعد ان کے یقین اورعلم میں مزید پختگی آگئی ۔

(5) اللہ تعالی نے اپنے نبی سلیمان عليه السلام کو پرندہ کی بولی، چیونٹی کی زبان اور ہدہد کی گفتگو بھی سکھلایاتھا، چنانچہ قرآن پاک میں ہے کہ ایک چیونٹی نے حضرت سلیمان عليه السلام کے جن و انس اور پرندوں پر مشتمل ایک بڑے قافلہ کو دیکھا تو اس نے چیونٹیوں کو باخبر کیا :

(قالت نملة یاایہا النمل ادخلوا مساکنکم لایحطمنکم سلیمان وجنودہ وہم لایشعرون ) [سورة النمل ۸۱]

”ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاو ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں روند ڈالیں “

امام ابن کثیر رحمة الله عليه فرماتے ہیںکہ چیونٹی کی یہ بستی شام میں واقع ہے اور یہ چیونٹیاں بھڑ کی جیسی دوپروں والی تھیں، مدعا یہ کہ سلیما ن عليه السلام نے چیونٹیوں کی بات سمجھ لی اور سن کر ہنس پڑے۔

(6) ایک مرتبہ سلیمان عليه السلام پانی کی تلاش میں نکلے تو ایک چیونٹی کو پیٹھ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا ، اپنے پاں کو آسمان کی طرف بلند کیے ہوئی تھی اور کہہ رہی تھی ” اے اللہ ، میں تیر ی مخلوق ہوں اور تیرے گھاٹ کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ، تو مجھے سیراب کر، ورنہ ہلاک ہو جاؤں گی“ سلیمان ں نے کہا:

(ارجعوا فقد سقیتم بدعوة غیرکم)

”لوگو ‘لوٹ چلو ! تمہیںدوسروں کی دعاءکی بدولت سیراب کر دیاگیا “ ۔

(7) ایک مرتبہ حضرت سلیما ن عليه السلام نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی نگاہ ایک چیونٹی پر پڑی جو گیہوں کا ایک دانہ لے کر نہر کی طرف جارہی تھی ، حضرت سلیما ن عليه السلام اس کو بہت غور سے دیکھنے لگے ، جب چیونٹی پانی سے نکلی تواچانک ایک مینڈ ک اپنا سر پانی سے نکالا اور اپنا منھ کھولا تو یہ چیونٹی اپنے دانہ کے ساتھ اس کے منھ میں چلی گئی، میڈک پانی میں داخل ہو گیا اور پانی ہی میں بہت دیر تک رہا ، سلیمان ں اس کو بہت غور سے دیکھتے رہے ،ذرا ہی دیر میں میڈک پانی سے نکلا اور اپنا منھ کھولا تو چیونٹی باہر نکلی البتہ اس کے ساتھ دانہ نہ تھا۔حضرت سلیمان عليه السلام نے ا س کو بلا کر معلوم کیا کہ ”ماجرہ کیاتھا اور وہ کہاںگئی تھی“ اس نے بتایا کہ اے اللہ کے نبی آپ جوسمندر کی تہہ میںایک بڑا کھوکھلا پتھر دیکھ رہے ہیں ، اس کے اندر بہت سے اندھے کیڑے مکوڑے ہیں، اللہ تعالی نے ان کو وہاں پر پیدا کیاہے، وہ وہا ں سے روزی تلاش کرنے کے لیے نہیں نکل سکتے‘ اللہ تعالی نے مجھے اس کی روزی کا وکیل بنایا ہے ، میں اس کی روزی کو اٹھاکر لے جاتی ہو ں اور اللہ نے اس میڈک کو میرے لیے مسخر کیا ہے تاکہ وہ مجھے لے کر جائے ، اس کے منھ میںہونے کی وجہ سے پانی مجھے نقصان نہیں پہنچاتا، وہ اپنا منھ بند پتھر کے سوراخ کے سامنے کھول دیتا ہے ، میں اس میں داخل ہو جاتی ہوں ، جب میں اس کی روزی اس تک پہنچا کر پتھر کے سوراخ سے اس کے منھ تک آتی ہوں تو میڈک مجھے منہ سے باہر نکال دیتاہے ۔

حضرت سلیما ن عليه السلام نے کہا: ”کیا تو نے اس کی کسی تسبیح کو سنا “ چیونٹی نے بتایا : ہا ں! وہ سب کہتے ہیں

: یامن لاینسانی فی جوف ہذہ اللجة ”

اے وہ ذات جو مجھے اس گہرے پانی کے اندر بھی نہیں بھولتا“ ۔

(8) موسی عليه السلام نہایت باحیا تھے ،چاہتے تھے کہ ان کی ستر پر دوسروں کی نگاہ نہ پڑے، اسی لیے وضو اور غسل کے وقت بہت زیادہ ستر پوشی سے کام لیتے تھے ،بنواسرائیل کہنے لگے کہ شاید موسی کے جسم میں برص کے داغ یا کوئی اس قسم کی آفت ہے جس کی وجہ سے یہ ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے ،ایک دن موسی عليه السلام تنہائی میں غسل کرنے لگے،کپڑے اتار کرایک پتھر پررکھ دئیے ، پتھر ان کا کپڑا لے کر بھا گنے لگا ،موسی عليه السلام اس کے پیچھے پیچھے دوڑے یہاں تک کہ بنو اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے ‘ انہوںنے موسی علیہ السلام کو ننگا دیکھا تو ان کے سارے شبہات دور ہوگئے اورکہنے لگے : ”خدا کی قسم! اس میں کوئی عیب نہیں ہے“ ۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی یہ آیت اتری :

(یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ آذَوا مُوسَی فَبَرَّ َہُ اللَّہُ مِمَّا قَالُوا وَکَانَ عِندَ اللَّہِ وَجِیہاً) (سورہ احزاب ۹۶)

”اے لوگو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاو جنہوں نے موسی (عليه السلام ) کو تکلیف دی ، پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انہیں اس سے بری کردیا اور وہ اللہ کے نزدیک باعزت تھے “ ۔

اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اوراس کی عبرت آموز مخلوقات کی مثالیں بے شمار ہیں ہم انہیں چند مثالوں پراکتفاکرتے ہوئے دعا گو ہیںکہ اللہ پاک ہمیں اپنی ذات کا عرفان عطا فرمائے اور ہمارے ایمان کو مضبوط کردے ۔ آمین

ابرارکلیم قاسمی

تبصرہ کریں