حلاوت ایمان

مسلم ،رقم ٤٣)
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِی صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيْمَانِ: مَنْ کَانَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَا هُمَا وَأَنْ يُّحِبَّ الْمَرْءَ لَايُحِبُّهُ إِلَّا لِلّٰهِ وأَنْ يَّکْرَهَ أَنْ يَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنْهُ کَمَا يَکْرَهُ أَنْ يُّقْذَفَ فِی النَّارِ.
”حضرت انس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں جس آدمی میں ہوں گی، وہ ان سے ایمان کی حلاوت پالے گا: ایک وہ جسے اللہ اور اس کے رسول ان کے سوا ہر چیز سے محبوب ہوں ۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی آدمی سے اللہ ہی کی خاطر محبت کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں لوٹنے کو اسی طرح ناپسند کرے، جس طرح وہ اس کو ناپسندکرتا ہے کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے، جبکہ اللہ نے اسے آگ سے نکال دیا ہے۔”

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِيْهِ وَجَدَ طَعْمَ الْإِيْمَانِ: مَنْ کَانَ يُحِبُّ الْمَرْءَ لَايُحِبُّ إِلَّا لِلّٰهِ وَمَنْ کَانَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ کَانَ أَنْ يُّلْقَی فِی النَّارِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَّرْجِعَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنْهُ.
”حضرت انس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں جس آدمی میں ہوں گی، وہ ایمان کا ذائقہ پا لے گا: وہ جو کسی آدمی سے اللہ ہی کی خاطر محبت کرے۔ وہ جسے اللہ اور اس کے رسول ان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں ۔ وہ جسے آگ میں ڈال دیا جانا کفر میں لوٹنے سے زیادہ پسند ہو، جبکہ اللہ نے اسے آگ سے نجات دی ہے۔”

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِيْثِهِمْ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ مِنْ أَنْ يَّرْجِعَ يَهُوْدِيًا أَوْ نَصْرَانِيًا.
”حضرت انس (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث اس فرق کے ساتھ بھی بیان کی ہے کہ اس میں (‘يرجع فی الکفر’ (وہ کفر میں لوٹ جائے) کے بجاے)، ‘يرجع يهوديًا أو نصرانيًا’ (وہ یہودی یا نصرانی ہوجائے) کے الفاظ آئے ہیں ۔ ”

لغوی مباحث
‘ثلاث’: ‘ثلاث من کن فيه’ میں ‘ثلاث’ مبتدا ہے اور باقی جملہ اس کی خبر ہے۔ مبتدا عام طور پر معرفہ ہوتا ہے۔ اگر تخصیص کا کوئی پہلو موجود ہو تو نکرہ بھی مبتدا ہو سکتا ہے۔ اس تخصیص کی متعدد صورتیں ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نکرہ کا مضاف الیہ حذف ہو۔ جیسے یہاں ‘خصال’ محذوف ہے۔

‘حلاوة الإيمان’: ‘حلاوة’ کے لغوی معنی مٹھاس کے ہیں ۔ مٹھاس اصل میں ایک حسی شے ہے، جیسے گڑ یا شہد کی مٹھاس۔ ایمان کے ساتھ حلاوت کے استعمال سے اس کا دل ودماغ کے لیے مرغوب ہونے کا پہلو واضح ہوتا ہے۔

‘طعم الإيمان’: ‘طعم’ کا لفظ اردو کے لفظ ذائقہ کا مترادف ہے۔ یہاں ‘طعم الإيمان’ سے ایمان کی لذتیں مراد ہیں ۔ جس طرح مادی چیزوں میں مرغوبات ہوتی ہیں ، اسی طرح معنوی چیزوں میں بھی مرغوبات ہوتی ہیں ۔ یہاں یہ تعبیر ایمان کی اسی مرغوبیت کو پیش نظر رکھ کر اختیار کی گئی ہے۔

معنی
اس روایت میں حلاوت ایمان پالینے کے تین باطنی مظاہر بیان کیے گئے ہیں : ایک یہ کہ ہماری کسی بھی آدمی سے محبت صرف اللہ کی خاطر ہو۔ دوسرا یہ کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول دوسری ہر چیز اور ہر تعلق سے زیادہ محبوب ہوں ۔ تیسرے یہ کہ کفر میں لوٹ جانا ہمیں آگ میں پڑنے سے بھی زیادہ اذیت ناک لگنے لگے۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں مرکزی بات ایک ہی ہے، یعنی یہ کہ ایک مسلمان کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزیز ہوں ۔

ایک مسلمان سے جو کردار مطلوب ہے، اس کے دو پہلو اس روایت میں نمایاں کیے گئے ہیں : ایک یہ کہ وہ ایمان کے ساتھ غایت درجہ وابستہ ہو۔ اس کے یقین نے اسے ایک نفس مطمئن بنا دیا ہو۔ اس کے دل میں اپنے ایمان کے بارے میں کوئی شائبہ شک راہ نہ پاتا ہو۔ معلوم ہو کہ اس کا ایمان اور وہ ایک ہی شے ہیں ۔ ایمان سے محرومی اس کے لیے اس سے زیادہ اذیت ناک لگنے لگے کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے۔ یہ چیز اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی، جب تک وہ مرکزی بات موجود نہ ہو جسے اللہ اور اس کے رسول کے سب سے زیادہ عزیز ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

اسی طرح دوسری چیز انسان کا اپنے ماحول سے تعلق ہے۔ یہ تعلق مختلف جہتوں سے وجود میں آتا ہے۔ دوست، کاروبار کے ساتھی، ہمسایے، رشتہ دار، بہن بھائی، والدین اور اولاد کے ساتھ آدمی فطری طور پر وابستہ ہوتا ہے۔ یہ وابستگی کم وبیش بھی ہوتی رہتی ہے۔ عام طور پر اس کا باعث کچھ شکایتیں ہوتی ہیں ۔ یہ شکایتیں بالعموم توقعات کے پورا نہ ہونے یا برتاؤمیں فرق پر مبنی ہوتی ہیں ۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ یہ کمی بیشی بھی خدا کے تعلق سے وابستہ رہنی چاہیے۔ مراد یہ کہ افراد تعلق کی عنایتیں اور مہربانیاں اور ان کی زیادتیاں اور بے مہریاں ، جب تعلق کی کمی بیشی پر اثرانداز ہونے لگیں تو خدا کے ساتھ ہمارا تعلق اس کیفیت کو تبدیل کردے اور ہمارا فیصلہ وہی ہو جو اس طرح کے مواقع پر ہمارا خدا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے، یہ چیز بھی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی، جب تک ہم ہر تعلق سے زیادہ خدا سے تعلق کو اہمیت نہ دیتے ہوں ۔

خدا سے سب سے بڑھ کر محبت دین کا تقاضا ہے۔ یہ بات بعینہٖ قرآن مجید میں بھی بیان ہوئی ہے۔ مثلاً سورہ بقرہ (٢:١٦٥) میں ہے: ‘وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰه’ (اور جو ایمان والے ہیں ، وہ اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت کرنے والے ہیں )۔ سورہ توبہ میں دین سے وابستگی کے ایک تقاضے کو پورا نہ کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی ہے:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِيْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْکُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه وَجِهَادٍ فِیْ سَبِيْلِه فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی يَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِه وَاللّٰهُ لاَ يَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ .(٩:٢٤)
”ان سے کہہ دو کہ تمھارے باپ، تمھارے بیٹے، تمھارے بھائی، تمھاری بیویاں ، تمھارا خاندان اور وہ مال جو تم نے کمایا ہے، وہ تجارت جس کے مندے کا تم کو اندیشہ ہے اور وہ مکانات جو تمھیں پسند ہیں ، اگر تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمادے۔اور اللہ بدعہدوں کو بامراد نہیں کرتا۔”

اس آیہ کریمہ میں ہر اس چیز کو گن کر نمایاں کیا گیا ہے جو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ وابستگی کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے اور بات اس نکتے پر ختم کی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور دین کی نصرت کو ان سب سے بڑھ کر عزیز ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے اہل ایمان کے دلوں میں ایمان کو کیا حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ سورہ حجرات میں ارشاد ہے:
وَلٰکِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْکُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَه، فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّهَ اِلَيْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ، اُولٰۤئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ .(٤٩:٧)
”اور لیکن اللہ نے تمھارے سامنے ایمان کو محبوب بنایا اور اس کو تمھارے دلوں میں کھبایا اور کفر وفسق اور نافرمانی کو تمھاری نگاہوں میں مبغوض کیا۔ یہی لوگ راہ راست پانے والے ہیں ۔”

اس محبت سے مراد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ سب علائق پر اللہ اور اس کے رسول کے حق کو فائق رکھا جائے اور آدمی کسی صورت میں بھی اللہ کی ناراضی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آدمی کو آپ کے اسوہ کی پیروی کرنے والابنائے تو یہ ایک امتی کی اپنے رسول سے محبت ہے۔ اور اگر اس محبت کا اظہار صرف زبان تک محدود ہے تو خطرہ ہے کہ روز قیامت اس محبت کی کوئی قدروقیمت نہ ہو۔

متون
امام مسلم نے اس روایت کے تین متن منتخب کیے ہیں ۔ یہ تینوں متن ‘ثلاث’ کے لفظ سے شروع ہوئے ہیں ، لیکن دوسری کتب حدیث میں اس روایت کے ایسے متون بھی روایت ہوئے ہیں جن میں اس روایت کا آغاز مختلف جملوں سے ہوا ہے۔ مثلاً بعض متون کا آغاز ‘من سره أن يجد طعم الإيمان’ ، بعض کا ‘لايؤمن أحدکم’، بعض کا ‘لايجد أحدکم حلاوة الإيمان’ اور بعض کا ‘من أحب أن يجد حلاوة الإيمان’ کے جملے سے ہوا ہے۔ ایک متن کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ‘ما الإيمان؟’ کے جواب میں ارشاد فرمائی تھی۔ جس طرح مسلم کے متون سے معلوم ہوتا ہے کہ ‘حلاوة’ کی جگہ پر ‘طعم’ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے، اسی طرح بعض روایات میں ‘ألإيمان’ کے بجاے ‘ألإسلام’ اور ‘وجد’ فعل کے لیے ‘ذاق’ بھی استعمال ہوا ہے۔ جس ترتیب سے ان روایات میں ایمان کے ثمرات بیان ہوئے ہیں ، کچھ متون میں ترتیب مختلف ہے اور بعض میں بعض اجزا نقل نہیں ہوئے۔ زیر بحث روایات میں ‘المرء’ کا لفظ آیا ہے۔ کچھ روایات میں اس کی جگہ ‘عبد’ اور بعض میں ‘غير ذی نسب’ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ‘غير ذی نسب’ کے الفاظ راوی کا اپنا فہم ہیں ۔ آخری جملے کے اختلافات بھی اسی طرح لفظی نوعیت کے ہیں ۔ مثلاً مسلم ہی کی روایات دیکھ لیں ۔ ایک روایت میں ‘يلقی’ اور دوسری میں ‘يقذف’ آیا ہے۔ اسی طرح ‘يرجع فی الکفر’ کی جگہ ‘يرجع يهوديا ونصرانيا’ آیا ہے۔ ایک دوسری کتاب میں آگ کا ذکر قدرے مختلف طریقے سے ہوا ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں : ‘أن توقد نار عظيمة فيقع فيها أحب إليه من أن يشرك’، ان الفاظ میں کفر کی جگہ شرک نے لے لی ہے۔ اسی طرح اس روایت کے فعل ‘أنقذ’ کی جگہ بعض روایات میں ‘أنجی’ کا فعل بھی نقل ہوا ہے۔ ان متون کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی اسالیب میں اور مختلف مواقع پر فرمائی تھی۔ ”مسند الشامیین” میں اسی نوع کی ایک گفتگو ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے:
عن أبی رزين العقيلی قال: قلت: يارسول اللّٰه، کيف يحيی اللّٰه الموتی؟ قال: أمررت بأرض من أرضك مجدبة، ثم مررت بها مخصبة، قال: نعم. قال: کذلك النشور. قال: يارسول اﷲ، ما الإيمان؟ قال: تشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ وأن محمدًا عبده ورسوله وأن يکون اللّٰه ورسوله أحب إليك مما سواهما وأن تحرق بالنار أحب إليك أن تشرك باﷲ وأن تحب غير ذی نسب لا تحبه إلا ﷲ فإذا کنت کذلك فقد دخل حب الإيمان قلبك، کما دخل حب الماء قلب الظمآن فی اليوم القائظ. قلت: يا رسول اﷲ، کيف لی بأن أعلم أنی مؤمن؟ قال: ما من هذه الأمة من عبد يعمل حسنة يری أنها حسنة، ولا يعمل سيئة يستغفر اﷲ فيها إلا هو مؤمن.(رقم٦٠٢)
”حضرت ابورزین عقیلی بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ مردوں کو کیسے زندہ کریں گے؟ آپ نے فرمایا: (کیا ایسا نہیں ہوتاکہ) تمھارے علاقوں میں کوئی علاقہ (تم گزرتے ہو تو) روئیدگی سے بالکل خالی ہوتا ہے، پھر تم اس میں سے گزرتے ہو تو سرسبز ہوتا ہے؟انھوں نے کہا: جی ہاں ، آپ نے فرمایا: قیامت میں اٹھنا اسی طرح ہوگا۔پھر پوچھا: یا رسول اللہ، ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تو اس بات کا برملا اعلان کرے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول تمھیں ان کے سوا ہر چیز سے زیادہ پسند ہوں ۔ یہ کہ تمھیں آگ سے جلا دیا جائے اس سے بہتر لگے کہ تم شرک کرو۔ جب تمھارا حال یہ ہو تو (سمجھ لو کہ ) ایمان کی محبت تمھارے دل میں داخل ہو گئی ہے، ایسے ہی جیسے سخت گرم دن میں پیاسے کے دل میں پانی کی محبت داخل ہو جاتی ہے۔ میں نے (اگلا) سوال کیا: یا رسول اللہ میرے لیے کیسے ممکن ہے کہ میں یہ جان لوں کہ میں مومن ہوں ؟ آپ نے فرمایا: اس امت کا کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو نیکی کا عمل کرتا ہو اور اسے وہ ایک نیکی سمجھتا ہو اور اسی طرح وہ برائی کرتا ہواور اللہ سے اس پر معافی مانگتا ہو، مگر یہ کہ وہ مومن ہو۔”

کتابیات
بخاری، رقم١٦، ٢١، ٥٦٩٤، ٦٥٤٢؛ نسائی، رقم ٤٩٨٧-٤٩٨٩؛ ترمذی، رقم٢٦٢٤؛ ابن ماجہ، رقم ٤٠٣٣؛ احمد، رقم٧٩٥٤، ١٠٧٤٩، ١٢٠٢١، ١٢٧٨٨، ١٢٨٠٦، ١٣١٧٤، ١٣٤٣١، ١٣٦١٧، ١٣٩٠٢، ١٣٩٤٠، ١٣٩٩١، ١٤١٠٢؛ ابن حبان، رقم٢٣٧، ٢٣٨؛ حاکم، رقم ٣، ٧٣١٢؛ بیہقی، رقم ٢٠٨٥٢؛ ابویعلیٰ، رقم ٢٨١٣، ٣٠٠٠، ٣١٤٢، ٣٢٥٦، ٣٢٥٩؛ السنن الکبریٰ، رقم١١٧١٨، ١١٧١٩، ١١٧٢٠؛ ابن ابی شیبہ، رقم ٣٠٣٦٠، ٣٤٧٦٥۔

تبصرہ کریں